پہلا سپارہ الم ہے جو سورہ بقرہ کی پہلی آیت سے شروع ہوتا ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر سورہ فاتحہ کس سپارے میں ہے؟ اور اگر کسی بھی سپارے میں نہیں ہے تو کیوں نہیں؟
سورہ فاتحہ حقیقتاً کسی سپارے میں بھی نہیں ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ یہ اللّٰہ تعالٰی سے ایک دعا ہے جس میں اِس دنیا اور آخرت کے خالق سے دعا مانگی جاتی ہے کہ ہمیں ہدایت پر چلا اور آخرت میں کامیاب ہونے کی ریسپی بتا۔ اور ہمیں اِس دعا کی اتنی ضرورت ہے کہ ہم ہر نماز میں یہ دعا کئی دفعہ مانگتے ہیں۔ ہم سے پہلے نبی اور صحابہ کرام بھی یہی کرتے تھے!
پھر تیس کے تیس سپارے اس دعا کا جواب ہیں۔ وہ اللّٰہ تعالٰی کا ہم سے خطاب ہے جس میں بہت سے موضوع مختلف پہلوؤں سے سمجھائے جاتے ہیں۔ اور ہم ان سورتوں کی آیات نماز میں بھی فاتحہ کے بعد پڑھتے ہیں یعنی نماز میں بھی دعا ہے اور پھر تیس سپاروں میں سے جواب۔ اور پھر ہم اللّٰہ کے سامنے جھک جاتے ہیں۔
یہ نماز پر کانسنٹریٹ کرنے کا بھی اچھا طریقہ ہے کہ انسان سمجھے کہ وہ اللّٰہ کے سامنے کھڑا ہے اور فاتحہ میں دعا کر رہا ہے اور اُس کے بعد قرآن اللّٰہ کا جواب ہے۔ اگر ہمّت ہو تو تھوڑا سا ترجمہ پہلے سے سمجھ لیں جس سے اس میں آسانی ہو جاتی ہے۔
قرآن میں سپاروں کی تقسیم نبی نے نہیں کروائی تھی اور نا ہی صحابہ کرام نے۔ جتنے بھی قرآن کے قدیم نسخے ہیں ان میں ایسی کوئی چیز نہیں۔ یہ تو بعد میں لوگوں کی تلاوت کی سپیڈ سیٹ کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس وقت کے علماء نے بھی یہی فیصلہ کیا کہ فاتحہ ایک دعا ہے اور باقی سورتیں اس کا جواب۔