جس طرح کچھ دیسی مرغے ہوتے ہیں، اس ہی طرح کچھ دیسی والدین ہوتے ہیں۔ دیسی مرغے ہر جگہ اپنی چونچ مارتے ہیں۔۔۔ آگے کا جملہ کہنے کی ضرورت نہیں، آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔
اس کی ایک مثال کسی نے یوں دی کہ بچہ اگر چرانوے نمبر لے کر گھر آئے اور بڑی خوشی سے بتائے تو آگے سے مبارک دینے کے یا خوش ہونے کے بجائے سوال آتا ہے کہ باقی چھ نمبر کہاں گئے۔ تعریف کرنے سے کہیں سر پر ہی نہ چڑھ جائے۔ ویسے میں نے آج تک کوئی بچہ سر پر چڑھا ہوا تو نہیں دیکھا البتہ کاندھے پر چڑھا ہوا ضرور دیکھا ہے۔ وہ بھی اکثر ابو جی ہی چڑھاتے ہیں ورنہ کسی کی یہ مجال۔
اگر آپ زیادہ خوش ہو جائیں تو ”ہنسنے کی کیا بات ہے، جاؤ ہوم ورک کرو۔“ اگر اداس ہو جائیں تو ”یہ منہ کیوں لٹکایا ہوا ہے۔“ بس یہی دیسی پن دین میں بھی چلتا ہے۔ ”نماز اتنی تیز کیوں پڑھ رہے ہو قبول نہیں ہوگی۔“ یہ تو شاید فرشتوں کو بھی نہیں معلوم کہ ارد گرد کے لوگ نماز قبول کرواتے ہیں۔ اگر روزے میں کچھ ایسا کہہ دیں جو دوسروں کو پسند نہ ہو تو روزہ مکروہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات بھی شاید روزے کو نہیں پتا تھی کہ وہ اب مکروہ کی کیٹگری میں شمار ہونے لگا ہے۔
لیکن اس کا اگلا لیول ہے دین کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنا۔ دیسی والدین کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ امی ابو کی بات نہ مانیں تو اللّٰہ میاں ناراض ہو جاتے ہیں۔ اگر امی سے چھپ کر کچن میں کچھ کھا لیں تو گناہ ہوتا ہے۔ جھوٹ بولنا غلط بات ہے۔ یہ آخری جملہ ٹھیک ہے۔ والدین کو اس جملے کو مدنظر رکھ کر اپنے اقوال زریں کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
ہمیں اتنا ڈرایا جاتا ہے کہ بچپن میں ہی ہمیں پتا چل جاتا ہے کہ ہم جہنم میں جائیں گے۔ ہمیں لگتا ہے کہ دین کے لیے کچھ بھی کرنے کا فائدہ نہیں۔ ایک نماز پڑھ کر ہم یہ نہیں سوچتے کہ اللّٰہ کا شکر ہے ایک پڑھ لی، اس سے قریب ہونے کی کوشش کی ہے اور وہ اس کا اجر دے گا۔ ہم یہ سوچتے ہیں کہ چار نہیں پڑھیں تو فائدہ ہی کوئی نہیں۔ جب جانا ہی جہنم میں ہے تو ایک بھی پڑھنے کا کیا فائدہ۔
یہ باتیں ہم اس ہستی کے بارے میں کہتے ہیں جو اپنی کتاب میں اپنا تعرف اپنے آپ کو رحمان اور رحیم کہہ کر کرواتا ہے۔ وہ تو کہتا ہے کہ اس سے زیادہ رحمت کسی اور میں پائی جا ہی نہیں سکتی۔ یعنی جتنی جان کی بازی ماں باپ لگا سکتے ہیں اپنی اولاد کے لیے وہ تو اس کے آگے کچھ بھی نہیں۔
تو جب نماز پڑھیں، اس سے غرض نہیں کہ کب آپ کی توجہ کسی دوسری طرف چلی گئی۔ اس سے غرض ہے کہ آپ نے اللّٰہ کے لیے نماز پڑھی۔ بس جب احساس ہو کہ توجہ کسی اور طرف چلی گئی ہے تو اس وقت واپس لے آئیں۔ سوچیں کہ آپ اس کے سامنے کھڑے ہیں، کیسے اس کے آگے جھک رہے ہیں، کیسے آپ کے پاؤں اس کی پاک زمین کو چھو رہے ہیں، کیسے ہم ایک چھوٹی سی ہستی اس کی اتنی وسیع کائنات میں اس سے راہ راست پر چلنے کی دعا مانگ رہے ہیں۔ یہ خیالات آپ کو واپس نماز کی اور اللّٰہ کی طرف متوجہ کر سکتے ہیں۔ بس آہستہ آہستہ پروگریس کرتے رہیں، اللّٰہ سے جتنا تعلق بنے گا اتنا ہی دین بھی آسان ہونے لگے گا۔ ہماری کوشش کا بھی بہت اجر ہے اور وہ کرتے رہنی چاہیے۔
اس ہی طرح روزے میں کسی سے نادانستہ طور پر جھگڑا ہو گیا تو یاد رکھیں اللّٰہ روزے کا اجر دے گا۔ اپنی غلطی ہو تو معافی مانگ لیں اور روزے کو اللّٰہ کی خاطر بہتر کرنے کی کوشش کر لیں۔ لیکن وہ آپ کو آپ کی محنت کا اجر ضرور دے گا، وہ عادل بھی ہے، کسی کا حق نہیں لے گا۔
اپنا تعلق اللّٰہ سے مثبت بنیاد پر قائم کریں۔ اس سے رشتہ جوڑیں کہ آخرت کی طرف ہم نہ چاہتے ہوئے بھی بڑھ رہے ہیں۔ وہ چاہتا ہے ہم کامیاب ہوں۔ دیسی عوام کو شاید یہ سمجھ نہیں آتا۔ ان کو ہر بات پر لگتا ہے کہ ہم جہنّم میں ہی جائیں گے۔ یہ ایک خاص دیسی مسئلہ لگتا ہے مجھے۔ اس کو تعلیم بالغان ڈرامے میں بڑا اچھا پیش کیا گیا۔ ملاحظہ ہو: