اصلی تشریح: تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے

یہ تابش کانپوری کی ایک مشہور غزل ہے، اگر آپ نے پہلے کبھی نہیں پڑھی، تو میرا مشورہ ہے کہ آپ اس کو پہلے ریختہ پر پڑھ لیں۔

آج کے نوجوان اور وہ عمر رسیدہ لوگ جو اپنے آپ کو ابھی بھی نوجوان سمجھتے ہیں، وه اِس غزل کا مضمون صرف عشق اور عاشقی سمجھتے ہیں۔ اُن کو اِس کا اصل مطلب ہی سمجھ نہیں آیا۔ یہ غزل تو اصلاً شادی اور زندگی کے مختلف مراحل بیان کرتی ہے اور نوجوانوں کو اُن کے مستقبل کے بارے میں ایک پشین گوئی دیتی ہے۔ تگڑا دل رکھنے والے چاہیں تو پڑھ لیں اور اپنا مستقبل بچا لیں!

پہلا شعر تو ذرا آسان ہے، منگنی ہو چکی ہے اور لڑکا کہیں دور بلکہ ہو سکتا ہے بیرون ملک جیسے آسٹریلیا یا امریکا کام کرتا ہے۔ لڑکا اور اُس کی ہونے والی بیوی شاید دونوں ہی اِس کیفیت میں مبتلا ہوں۔

تیری صورت نگاہوں میں پھرتی رہے عشق تیرا ستائے تو میں کیا کروں
کوئی   اتنا   تو   آ کر   بتا دے   مجھے   جب   تری   یاد   آئے   تو  میں   کیا   کروں

آگے آنے والے شعر کا پس منظر یہ ہے کہ شادی کو آٹھ دس سال ہو چکے ہیں، دو تین بچے ہیں، ایک اپنے ابو کے کندھے پر چڑھا ہوا ہے، دوسرا اس کی آنکھ پھوڑنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ابو جی کو کوئی ہوش نہیں۔ اور تیسرا سب سے چھوٹا ابھی نیپی میں ہی ہے جو کہ وہ قالین پر کھول رہا ہے۔ امی جی کچن میں کچھ کر رہی ہیں اور جب یہ سب گند ہوتا ہے اور امی نمودار ہو کر چکلا بیلنا بچے پر پھینکتی ہیں تو وہ ابو جی کے سر پر لینڈ کرتا ہے اور وہ سیدھا فرش پر ”خاک نشیمن کو بوسہ دیتے ہیں“۔ بجلی گر چکی ہے۔

میں نے خاک نشیمن کو بوسے دیے اور یہ کہہ کے بھی دل کو سمجھا لیا
آشیانہ    بنانا    مرا    کام    تھا     کوئی     بجلی     گرائے     تو    میں    کیا    کروں

میاں سوچتا ہے کہ وہ اس بجلی زدہ مکان سے کوئی اسکیپ ڈھونڈے تو وہ کوئی کار ریلی کا یا دوستوں کے ساتھ پہاڑوں کی سیر کا پلان بناتا ہے۔ پر بیوی آڑ کی طرح سامنے کھڑی ہے، ”یہ اپنے بچے میرے سر پر چھوڑ کر تم عیاشیاں کرنے جا رہے ہو؟“ میاں پھر کوشش کرتا ہے کہ کام کا بہانہ بنا کر چین یا دبئی وغیرہ ہی چلا جائے، لیکن یہ اسکیم بھی بیگم فیل کر دیتی ہے۔ لاکھ دعا مانگی پر جو وہ چاہتا ہے وہ ہی نا ملے تو کیا کیجیے۔

میں نے مانگی تھی یہ مسجدوں میں دعا میں جسے چاہتا ہوں وہ مجھ کو ملے
جو مرا  فرض تھا  میں نے پورا کیا  اب خدا ہی نہ چاہے  تو میں کیا کروں

اب میاں چھپ چھپ کر دوستوں سے ملتے ہوئے تھوڑی بہت پینا پلانا شروع کر دیتے ہیں۔ بیوی کو پتا چل گیا اور ظاہری بات ہے کہ حرام کام تھا تو آفت تو آنی تھی۔ تو پہلے تو اپنی صفائی میں کہا کہ وہ بیوی کے لیے پیتے ہیں اور توبہ وغیرہ بھی کی۔ وہ الرحمان ہے، غلطی کا احساس ہو جائے تو معافی تو مانگنی چاہیے۔ پھر اپنے آپ کو تہمت سے بھی بچانے کی کوشش کی۔

شوق   پینے   کا   مجھ   کو   زیادہ   نہ   تھا   ترک   توبہ   کا   کوئی   ارادہ   نہ   تھا
میں شرابی نہیں مجھ کو تہمت نہ دو وہ نظر سے پلائے تو میں کیا کروں

لیکن بیوی نہیں مانی تو اگلے شعر میں وہ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اللّٰہ نے تو توبہ کا طریقہ بتا دیا پر بیوی سے معافی ملنا ناممکن لگتا ہے حالانکہ اگر آپ آج کل کی کسی بیوی سے پوچھیں تو وہ کہے گی کہ معافی کا طریقہ ہے اگر کوئی مانگنا چاہے تو!

حسن  اور عشق  دونوں میں تفریق ہے  پر انہیں  دونوں پہ میرا  ایمان ہے
گر خدا روٹھ جائے تو سجدے کروں اور صنم روٹھ جائے تو میں کیا کروں

جیسے جیسے بڑھاپا آتا گیا، میاں کو احساس ہوا کہ پوری زندگی کس کام میں گنوا دی۔ دوستوں کی صحبت تو ایسی نہ تھی کہ کوئی دین وغیرہ کی بات کی جاتی تو میاں جی اُن سے چھپ چھپ کر اللّٰہ کو یاد کرنے لگے۔ ایک دن مسجد گئے تو واپسی پر ایک لنگوٹیے یار نے دیکھ لیا جس کو میاں کی اسکول کی تمام کارستانیاں اچھی طرح یاد تھیں، تو پہلے تو وہ گنوائیں اور پھر خوب مذاق اڑایا، ”تو نماز پڑھ رہا تھا، وہ وقت یاد ہے جب تو …؟“ اور اس کے آگے کوئی لڑکپن کی حرکت کا ذکر۔

ایسے لوگ لگتا ہے کبھی اسکول سے نکلتے ہی نہیں۔ جب ملو وہی پرانی باتیں لے کر شروع۔ خیر میاں کی نیک حرکتوں کا اوروں کو پتا چلا تو مولوی، ملا،پردہ نشین، اور جانے کیا کیا لقب دیے گئے۔ بس ایسے ہی موقعے کے لیے یہ آخری شعر کہا گیا۔

چشم  ساقی  سے پینے  کو  میں  جو  گیا  پارسائی  کا  میری  بھرم کھل گیا
بن رہا ہے جہاں میں تماشا مرا ہوش مجھ کو نہ آئے تو میں کیا کروں

انا للہ وانا الیہ راجعون

نرگس کون تھی؟

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مُشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ وَر پیدا

لگتا ہے کہ شاید شاعرکی نرگس سے کوئی رفاقت تھی جو اتنے دردمندانہ انداز میں اُس کی تکلیف کا ذکر کیا ہے۔ غالباً اندھی تھی جو بیٹھ کر اپنی بے نوری کو روتی رہی۔ اگر کوئی دینی لیکچر سن لیتی توغم بھی کم ہو جاتا، وقت بھی کٹ جاتا اور آخرت بھی سنور جاتی۔

ہزار سال کہہ کر شاعر نے زیادہ ہی چھوڑ دی ہے۔ اصل میں سال دو سال کا بھی قصہ نہیں ہوگا۔ سنا ہے شاعر نشے میں لت پت کچھ بھی کر بیٹھتے تھے۔ ایک دفعہ تو کسی خاتون کا قتل بھی کر دیا اور انگلستان بھاگنا پڑگیا۔ ویسے کیا زمانہ تھا، اب تو پوری قوم قتل کیے بغیر صاف ریکارڈ کے باوجود بھی انگلستان کی امیگریشن کو ترستی ہے پر کامیابی دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔

ویسے علامہ اقبال کے بارے میں یہ ساری باتیں گڑھی ہوئی لگتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ تحریک پاکستان کو ناکام بنانے کے لیے حریفوں نے یہ شوشہ چھوڑا تھا اور ہماری عوام کو گپوں کا شوق تو ہے ہی سو بات پھیل گئی۔ اور یہ بھی بَونگی ہے کہ انگریز جو ہندوستان اور انگلستان دونوں میں قانون نافذ کر رہے تھے انھوں نےسوچا کہ بچہ اسمارٹ ہے، اسے جرم کر کے ہندوستان سے بھاگنا آتا ہے اس لیے انگلستان میں چھوڑ دیتے ہیں، یقیناً ہماری کسی لڑکی کو یہاں تنگ نہیں کرے گا۔

پہلے مصرعے کا دوسرے سے کوئی تعلق بھی نہیں سمجھ آتا۔ مطلب یہ تو سمجھ میں آسکتا ہے کہ نرگس روزانہ چمن میں پودوں کو پانی دیتی ہوگی اور بینائی نہ ہونے کے سبب غلط ملط دے دیتی ہوگی اس لیے پودے نہیں اُگ رہے تھے پر یہ نہیں سمجھ آتا کہ دیدہ ور کیسے پیدا ہو سکتا ہے اور وہ بھی چمن میں۔ یا پھر جو ایک آدھ پودا نکل ہی آیا تو نالائق نرگس نے اُسی کا نام دیدہ ور رکھ دیا ہوگا۔

یہ بھی ایک مُعمّہ ہے کہ آٹھویں کے بچے قائداعظم پر تقریر کرنے سے پہلے یہ شعر پڑھ کر اظہار تعزیت کیوں کرتے ہیں اور علامہ پر تقریر سے پہلے کیوں نہیں کرتے جبکہ نرگس اُن کی رفیق تھی۔ اِن دلائل کی روشنی میں واضح ہوا کہ

سال دو سال نرگس اپنی بے نوری پہ روئی تھی
بڑی مشکل سے ہوا تھا چمن میں پودا اِک پیدا