ہمارے ہاں کسی رشتہ دار سے محبت دکھانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کو ٹِکا کر کھانا کھلایا جائے چاہے اس کا پیٹ چیخ چیخ کر معافی مانگے کہ بھائی شاید غلط گھرآگئے۔ ہر وہ چیز جو صحت کے لیے مضر ہو سکتی ہے، آپ کے سامنے ٹرالی میں پیش کی جائے گی اور اس کی وہ تعریف کی جائے گی کہ بنانے والا بھی سن کر دنگ رہ جائے۔ اگر آپ میزبان کے حساب سے کم کھا رہے ہوں گے تو وہ بذات خود آپ کی پلیٹ میں کچھ ڈال دیں گے، یا کم از کم گلہ ضرور کریں گے کہ جو من دو من کھانا آپ کو اونٹ سمجھ کر آپ کے لیے تیار کروایا ہے، آپ اس کی بے حرمتی تو کر ہی رہے ہیں۔
جو ٹرالی آپ کے سامنے پیش کی گئی ہے، اُس میں چینی سے بھر پور مٹھائیاں، کھیریں، کیک اور انگریزی طرز کے دوسرے لوازمات شامل ہیں۔ اگر ان سے ابھی آپ کا ذیابیطس اور دل کی بیماریاں ہونے کا اِمکان نہ بڑھا تو خالص تیل میں تلے ہوئے پکوڑے، کباب اور کٹلٹس وغیرہ آپ کی نظر کیے جائیں گے۔ ویسے مٹھائی کو تو ڈاکٹرلوگ تمغہ دے سکتے ہیں کیوں کہ اس کی وجہ سے انکی دکان جتنی چلتی ہے شاید باقی سب کھانا ملا کر بھی اتنی نہ چلتی ہو۔ دیسی گھی سے تیار شدہ میٹھا، واہ جی واہ۔
سب سے دل موہ لینی والی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ اپنی صحت کا پاس رکھتے ہوئے اس کھانے کے خصائص کے بارے میں کچھ ارشاد فرمادیں توآپ کو ہر چیز کی افادیت گنوائی جائے گی۔ چاہے وہ چیزیں آپ کو پسند بھی نہ ہوں، اگر آپ نہیں کھائیں گے تو انھیں لگے کا کہ آپ اپنی جان پرظلم کر رہے ہیں۔
آپ ایک دو کلو کھا بھی لیں پھر بھی”یہ بھی چکھیں نا، آپ نے تو کچھ لیا ہی نہیں۔“ کئی دفعہ تو دل کرتا ہے کہ آج کہہ ہی دوں ”سفید جھوٹ“ پر پھر چپ ہی رہتا ہوں۔
اور بہترین بات تو یہ کہ کچھ میزبان تو دھڑلے سے آپ کو یقین دہانی بھی کرائیں گے کہ پوری سائنس ایک طرف اور ان کی ماہرانہ رائے ایک طرف۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پھر حکیم کی دی ہوئی پھکی کھائیں اور آپ کو بھی اس کی جارحانہ تجویز دیں، کیوں کہ یہی ہے سارے صحت کے مسائل کا اصلی حل۔