رمضان مبارک۔ سوره نازعات میں یوم قیامہ کے بارے میں بتاتے ہوئے قرآن مجید میں کہا گیا ہے:
”پس جس کسی نے سرکشی کی اور دنیا کی زندگی کو ترجیح دی، تو دوزخ اس کا ٹھکانا ہوگا۔ اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو جنت اس کا ٹکھانا ہوگا۔“
اس کو مولانا وحید الدین خان نے یوں سمجھایا ہے: ”آدمی دو چیزوں کے درمیان ہے۔ ایک موجودہ دنیا جو سامنے ہے۔ اور دوسری آخرت کی دنیا جو غیب میں ہے۔ آدمی کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ موجودہ دنیا کے مقابلہ میں آخرت کو ترجیح دے۔ مگر یہ کام صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں، جو اپنے نفس کی خواہشوں پر کنٹرول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔“
کچھ چیزیں تو واضح ہیں مثلا نماز، روزہ، اور دوسری عبادات۔ اس کے علاوہ حقوق العباد بھی ظاہر ہیں کیوں کہ ان کا ذکر بھی قرآن اور حدیث دونوں میں ہے۔ لیکن مجھے یہ بھی لگتا ہے یہ آیات ہمارے دل کی کیفیت کے بارے میں بھی کچھ کہ رہی ہیں۔ اور یہ کیفیت دوسروں کو نظر نہیں آتی۔ نہ ہی آپ کسی اور کے دل کی کیفیت کو جان سکتے ہیں۔
مثلا ایک ریڑھی والا بھی ہو سکتا ہے آخرت کا خیال دل میں لے کر گھر سے نکلا ہو کہ میں رزق حلال کماؤں گا، اپنے بیوی اور بچوں کی ضروریات پوری کروں گا کیوں کہ یہ میرا باپ اور میاں ہونے کے ناتے فرض ہے۔ آخر سب سے بڑا حق گھر والوں کا ہی ہے۔ ایسے میں اس کے سامنے ایک گاہک آتا ہے اور ایک تھوڑا سا خراب پھل اپنے لفافے میں ڈال لیتا ہے۔ وہ چاہے تو بتا سکتا ہے اور چاہے تو چپ رہ سکتا ہے۔ ایسے میں وہ جو فیصلہ بھی کرے، اصل بات یہ ہے کہ اس کے دل نے کیا آخرت کو ترجیح دی یا دنیا کو۔ وہ یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ یہ پھل گزارے لائق استعمال ہو سکتا ہے اور گاہک نے دیکھ کر ہی ڈالا ہے، اگر نہ بکا تو اللّٰہ کا رزق ضائع ہو جائے گا۔ اور وہ یہ بھی سوچ سکتا ہے کہ پھل کسی قابل نہیں پر اب ریڑھی کامیاب کرنی ہو تو سب چلتا ہے۔ ان دونوں سوچوں کے بیچ فرق ہے، اور شاید یہ آیات یہ فرق ہی بتا رہی ہیں۔
چاہے آپ پروفیسر ہوں، ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں، ویب ڈیزائنر ہوں، سافٹ ویئر ٹیسٹر ہوں، کوئی بیکری چلاتے ہوں، آن لائن اپنا کاروبار کرتے ہوں، اصل سوال یہ ہے کہ کام کرتے وقت، دوسروں سے ملتے وقت، کوئی بہت مشکل مسئلہ حل کرتے وقت، آپ کے دل میں آخرت ہے یا دنیا۔ میں یہ ہرگز نہیں کہ رہا کہ اپنا حق کھودیں۔
ہمارے ہاں اکثر لوگوں کو ان کا ظاہری روپ دیکھ کر جج کیا جاتا ہے۔ اس نے کیسے کپڑے پہنے، کتنی نمازیں پڑھتا نظر آتا ہے، داڑھی کیسی ہے، سر پر دوپٹتا لیتی ہے کہ نہیں، وغیرہ وغیرہ۔ میرا خیال ہے کہ اللّٰہ سے قربت حاصل کرنے کے لیے یہ دعا کرنی چاہیے کہ ہم اللّٰہ کے قریب ہو جائیں اور دل میں اس کا احساس رہے۔ اور ہر موڑ پر ہم آخرت کو سوچ کر فیصلہ کریں۔ اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ دنیا چھوڑ دی جائے، یا اپنے منہ کا ڈیزائن بدل دیں، یا اپنے کردار میں کوئی مصنوعی ٹرانسفورمیشن لے آئین۔ یہ سب آپ کو سوسائٹی بتاتی ہے۔ پر اس رمضان آپ الله سے بس تعلق جوڑنے کو نمبر ون رکھیں۔