ایک دفعہ ایک کوا اڑتا ہوا جا رہا تھا کہ اس کو ایک مٹکا نظر آیا۔ وہ حیران ہو گیا کہ ایسی چیز جو اس نے اپنے بزرگوں سے سنی تھی آج بھی پائی جاتی ہے۔
بس وہ فورا آترا، اپنا فون نکالا اور جھٹ ایک سلفی لی۔ پھر اسے احساس ہوا کہ اتنی لمبی فلائٹ کے بعد کچھ حلیہ ٹھیک نہیں۔ گھر سے بھی فوٹو کے لیے بن سنور کر نہیں نکلا تھا تو اپنے آپ کو کوسا۔ کچھ حلیہ ٹھیک کیا اور تیس چالیس سلفیاں مختلف اینگل سے لیں۔ کوئی تو چل ہی جائے گی۔
اب اس کو احساس ہوا کہ اس کو اتنی دیر دھوپ میں سلفیاں لینے سے پیاس لگی گئی ہے۔ دور دور تک پانی نہ تھا البتہ اس نے دیکھا کہ مٹکے میں کچھ پانی ہے۔ تو اس نے سرچ کی کہ کیا یہ پانی پینے کے لیے سیف ہے۔ جواب ملا کہ اس پانی میں جرمز ہوسکتے ہیں جن سے بیمار ہونے کا ڈر ہے۔ ساتھ ایک پرانی حکایت نکلی کہ زمانہ قدیم میں کسی کوے نے ایسے مٹکے سے پانی پیا تھا لیکن کوئی ریسرچ نہیں موجود جس سے پتا چلے کہ اس کی باڈی پر کیا لونگ ٹرم ایفیکٹ ہوئے۔
نیچے کچھ اور کووں کے ریویوز بھی تھے کہ یہ کہانی فیک لگتی ہے کیونکہ اس کوے نے بہت سے کنکر ڈالے تھے۔ تو پہلی بات تو یہ کہ کنکر خود بھی پانی جذب کرتے ہیں۔ دوسرے ان میں مٹی وغیرہ ہوتی ہے اور وہ پانی میں مکس ہو کر گلے میں آئے گی، سارا ذائقہ خراب۔ اور تیسرے کنکریوں کے بیچ میں خالی جگہ رہ جائے گی اور سائنسی لحاظ سے پانی تو وہاں رہ جائے گا۔ یعنی کنکر اوپر اور پانی نیچے۔
یہ پڑھ کر کوے نے سوچا کہ یہ تو ٹو مچ ایفرٹ ہے اور فائدہ بھی کوئی خاص نہیں لگ رہا۔ پیاس بہرحال لگ رہی تھی تو اس نے پانی نکالنے کا اگلا آئیڈیا سرچ کیا۔ اس میں لکھا تھا کہ ایک کوے نے ایک دفعہ اسٹرا استعمال کیا تھا اور اسے کامیابی ہوئی تھی۔ لیکن پھر اور کووں کے ریویوز میں لکھا تھا کہ اسٹرا اور پلاسٹک سے بہت سے پرندے مر بھی جاتے ہیں تو ان سے تو دور رہنا چاہیے۔
کوے نے یہ آئیڈیا بھی ریجیکٹ کر دیا۔ پھر اس نے ایک ایپ میں ارد گرد کے بہترین واٹر کولروں کے ریویوز ایک گھنٹہ لگا کر پڑھے۔ اتنا تو کوے اپنے امتحان کے لیے بھی نہیں پڑھتے جتنا ایک ڈرنک یا ڈیزرٹ کے لیے پڑھتے ہیں۔ بحرحال جو بیسٹ کولر لگا اس کی طرف اڑ گیا۔ اڑتے اڑتے ایک اور سیلفی ”وِد ٹریڈیشنل مٹکا اِن بیک گراؤنڈ“ لی تا کہ وہ اپنی پروفائل پر کلچرل ڈی پی لگا سکے۔